Sunday, 15 July 2018

ہم صارفین

آگاہی پر شائع ہو چکا ہے

 کہتے ہیں کہ خریداری خواتین کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ مگر دیکھا جائے تو مرد حضرات بھی خریداری میں کسی طرح کم نہیں
ہوتے ۔اور اس خریداری میں اشیاء ضروریہ کے علاوہ کچھ لوگوں کی خدمات بینک سروسز بھی شامل ہوتی ہیں ۔ جو ہماری زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں ۔
دنیا بھر کے دکاندار حضرات اپنے گاہکوں کے لیے ہر طرح کی ورائٹی رکھتے ہیں ۔ تاکہ اگر کوئی ان کی دوکان میں داخل ہو تو وہ بنا کچھ لیے باہر نہ جائے۔ اسی لیے ایک جیسا سامان رکھنے والی دوکانوں میں مقابلے کی فضا چلتی رہتی ہے۔اکثر دوکاندار معیاری اور اوریجنل اشیاء رکھتے ہیں. کہ اگر ایک گاہک ان کی دوکان سے کوئی چیز خریدے تو دوبارہ بھی ضرورت پڑنے پر ان کی ہی دوکان کا رخ کرے۔ اس کے برعکس کچھ دوکاندار صرف سستی اشیاء رکھتے ہیں ۔ان کی ٹارگٹ مارکٹنگ کم آمدن والے لوگ ہوتے ہںی۔ بہرحال دوکانداروں کی اکثریت کا بیچی ہوئی اشیاء کے بارے میں خیال ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز بک جائے تو کسی بھی خامی یا تبدیلی کی صورت میں گاہک واپس نہ آئے۔ اور اس کے لیے انہوں نے دکانوں
پر بھی لکھوا رکھا ہوتا ہے کہ بیچی ہوئی چیز واپس یا تبدیل نہیں ہو گی۔ یہ تو بات تھی اشیاء کی ، ہم ایک اور چیز کے بھی گاہک ہوتے ہیں اور وہ ہیں خدمات ۔ جو ہم کسی نہ کسی صورت میں روز مرہ زندگی میں حاصل کر رہے ہوتے ہںن ۔ مثلاً ٹیلر ،میڈیکل سروسز، فون ، انٹرنٹ۔، موبائل نیٹ ورکس وغیرہ وغیرہ
کیا کبھی ہم نے بازار سے اشیاء خریدتے ہوئے سوچا کہ ہم جو خرید رہے ہیں کیا پیکٹ کے اندر بھی وہی موجود ہے جو اوپر لکھا ہے؟ یا ہمیں جو سروسز دی جا رہی ہیں کیا یہ وہی ہیں جو ہم چاہتے ہیں یا جن کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے؟۔۔۔۔۔۔بحیثیت قوم ہم پاکستانی ایسی بہت سی چیزوں اور باتوں کو اس خریدو فروخت میں نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں جن کو مد نظر رکھنا ہمارے لیے از حد ضروری ہوتا ہے۔ مگر ہم ”ہمیں کیا “ اور ”اب ہم اکیلے کیا کرسکتے ہیں “ کے چکر مں پڑے ہوتے ہں ۔ حالانکہ اگر ایک شخص قدم بڑھائے گا تو باقی بھی اس کی دیکھا دیکھی وہی کام کریں گے۔ کیونکہ بھیڑ چال ہماری عادت ہے۔
دنیا بھر میں خریداروں کو ان کے حقوق کے بارے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہم بحیثیت خریدار اپنے حقوق اور فرائض سے نابلد ہیں ۔میرا یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد ہی یہ کہ ہم بحیثیت خریدار اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہو جائیں ۔ہمارے نابلد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے صارف قوانین موجود تو تھے مگر ان کا اطلاق عملی طور پر نہںں تھا ۔ہمارے ہاں اکثر قوانین بنتے اور لاگو بین الاقوامی دباﺅ پر ہوتے ہیں ۔ ایسا ہی قانون برائے تحفظ صارف کے سلسلے میں ہوا۔
سن 2005میں قانون برائے تحفظ صارف آنے کے بعد اور صارف عدالت بننے کے بعد ان کا عملی اطلاق ہوا۔ اس وقت بھی صارف عدالتوں کے موجود ہونے کے باوجود بھی لوگ اس کی موجودگی سے واقف نہیں ۔ اور جو واقف ہیں وہ عدالت کا نام ذہن میں آتے ہی بدک جاتے ہیں ۔ کیونکہ عدالت کا مطلب وکیل کی لمبی فیس اور عدالتوں کے چکر ذہن میں آتے ہیں ۔ اس لے وہ اس طرف رخ کرنے سے کتراتے ہںے۔ مگر اس عدالت کا طریقہ کار مختلف ہے ۔ یہ عدالت اصل میں عوام کی سہولت کے لیے بنائی گئی ہیں ۔
بحیثیت خریدار ہمیں چند چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے. اس کا بھی ایک معیار مقرر ہے کہ خریدار کو کیا کچھ معلوم کرنے کا حق ہے۔یہ معیار بین الاقوامی طور پر متعین کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ ترقی پذیر ممالک اور ترقی یافتہ ممالک مں یکساں ہیں کیونکہ یہ معیار یو این کی طرف سے متعین کیا گیا ہے:

جب ہم کچھ بھی لینے جاتے ہیں تو جو مطلوبہ چیز ہمیں چاہیے ہو ہمیں وہی لینی چاہئے ۔ اکثر دوکاندار اس چیز کا متبادل دکھا کر ہمیں آمادہ کر لیتے ہیں کہ ہم اس کی دکھائی ہوئی شے لے لیں. ۔ یہ بات خریدار کے حق کے خلاف جاتی ہے۔ لیکن ہم اچھا کوئی نہیں کہہ کر اس کی بات مان لیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔

جب بھی ہم کوئی ایسی شے جس کا تعلق ہماری جلد یا بالوں سے ہوتا ہے لینے جائیں تو ہمیں یہ جان لینے کا پورا حق ہے کہ آیا وہ ہمارے لئے محفوظ ہے یا نہیں. اس کے استعمال سے ہمیں کسی قسم کا نقصان مثلاً الرجی وغیرہ تو نہیں ہو جائے گی۔

  ہمیں یہ جان لینے کا حق بھی ہوتا ہے کہ جو چیز ہم خرید رہے ہیں وہ کن اجزاء سے بنی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کمپنی کا نام تو پرنٹڈ ہوتا ہے مگر اجزائے ترکیب ندارد ۔ایسی اشیاء پر اعتبار کرنا مشکل ہوتا ہے ۔اس لے خریدتے ہوئے تھوڑا سا پیکٹ کو گھما کر دیکھ لیا کریں۔

  ہمیں یہ بھی جان لینے کا حق ہے کہ جو چیز ہم خرید رہے ہیں وہ کب بنی ہے۔ اور کب تک استعمال کے قابل ہے۔ بعض اشیاء پر لکھا ہوتا ہے بننے کے دو سال تک قابل استعمال ہے۔ وہ بنی کب یہ نہیں لکھا ہوتا ہے۔
  ہمیں یہ جاننے کا حق بھی ہوتا ہے کہ جو اشیاء ہم استعمال کر رہے ہیں وہ ماحول دوست بھی ہے یا نہیں ۔ ایک اچھا ماحول ہمارا اور ہمارے بچوں کا پیدائشی حق ہے۔
ہمیں یہ جاننے کا حق بھی ہے ہمیں جو بھی سروسز دی جا رہی ہیں کا یہ وہی ہیں جن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بعض اوقات آپ کو بتایا کچھ جاتا ہے مگر مہیا کچھ اور کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً موبائل نیٹ ورکس اور پی ٹی سی ایل کی سروسز میں ہوتا ہے۔ ایک پیکج جو ہم نے ایکٹیویٹ کرایا ہوتا ہے اس سروس پرووائڈنر اپنی مرضی سے اپ گریڈ کرتے رہتے ہیں جس کا ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا ہے۔
ہمیں اس بات کا بھی حق حاصل ہوتا ہے کہ جس چیز کی قیمت ہم ادا کر رہے ہیں وہ کسی بھی طور سے ڈیفیکٹو نہ ہو کسی بھی قسم کا نقص اس میں نہ ہو۔ اگر کوئی دوکاندار آپ کو کسی معمولی سے نقص والی شے یہ کہہ کر بچتا ہے کہ یہ بالکل ٹھیک ہے ۔ تو آپ اس کی اس غلط بیانی پر اس کے خلاف مقررہ ادارے کو شکایت کر سکتے ہیں ۔

ایک صارف کا یہ حق ہے کہ اس کی ، کی گئی شکایت کو سنا جائے اور اس کا ازالہ کا جائے۔ اور اس شے کے خراب ہونے سے جو اس کو نقصانات ہوئے جس میں ذہنی اذیت بھی شامل ہے کا ہر جانہ اس دوکاندار سے دلوایا جائے جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے اب سوال اٹھتا ہے کہ ہم کب صارف عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں
۔۔۔۔۔ اس کا جواب آپ کو اوپر کے پوائینٹس مںے کافی حد تک مل چکا ہو گا ۔مگر پھر بھی بتا
تی چلوں کہ اوپر دیے گئے حقوق اگر آپ کو نہ ملیں تو آپ بلا جھجک صارف عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں جب بھی خریداری کے لئے جائیں دکاندار سے اشیاء کی رسید ضرور طلب کریں۔ اکثر دیکھا گیا خاص طور سے بیکریز پر صرف ایک سلپ پر چند رقوم درج کر دی جاتی ہیں ۔ یا پھر کریانے کی دوکان پر ایک کاغذ کے ٹکڑے پر چند رقوم لکھ کر بل کے نام پر تھما دی جاتی ہیں ۔ ایک ٹھیک رسید جو کہ کسی بھی جگہ مانی جائے اس میں بھی چند باتیں دیکھنا اہم ہوتی ہں ۔جیسا کہ رسید پر جس جگہ سے اشیاء خریدی گئیں ہیں اس دوکان کا نام اور پتہ درج ہو ۔ خریدی گئی اشیاء کی مکمل تفصیل درج ہوبمعہ ان کی قیمتوں کے۔بل بنانے والے کا نام یا سائن درج ہوں۔ اس کے علاوہ بل ٹھیک طریقے سے مہر شدہ ہو۔
پنجاب میں صارفین کے تحفظ کے لیے کنزیومر کورٹس اور کنزیومر کاﺅنسلز قائم کی گئی ہیں ۔ایک صارف اپنا کیس صارف عدالت کے سامنے خود پیش کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وکلاء
کی خدمات لی جائیں ۔ اگر اس کی شکایت پچاس ہزار تک کی رقم کو کی جائے. DCO کی ہے تو درخواست ۔ ڈی سی او کو ڈی سی او کو پیش کی جانے والی درخواست میں اشیاء کی سٹینڈرڈ پرائس سے زیادہ کی رقم وصول کی جانے کی شکائتو شامل ہے ۔جیسا کہ اکثر جگہوں پر خاص طور سے ریستورانز میں منرل واٹر یا کولڈ ڈرنک کنٹرولڈ پرائس پر نہیں بیچا جاتا ۔ اگر ان جگہوں پر اس کی مقرر کردہ قیمت سے زیادہ وصول کی جا رہی ہے تو شکایت آپ کا حق ہے۔
سب سے اہم بات یہ شکایات بذریہ پوسٹ بھی کی جا سکتی ہیں ۔ اس کے لیے شکایت کنندہ اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے اس کا نام اور پتہ درست ہونا بہت ضروری ہے۔ اور سب سے اہم بات ایک بار پھر بتا دوں کہ صحیح رسید کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ شکایت کے طریقہ کار میں یہ بات اہم ہے کہ جس روز آپ نے چیز خریدی ہے اس روز سے پندرہ یوم کے اندر اندر سادہ کاغذ پر لیگل نوٹس متعلقہ دوکاندار کو دیا جاتا ہے۔ یہ لیگل نوٹس کسی کورئیر سروس کے ذریعہ سے دیا جانا ضروری ہے ۔ تاکہ نوٹس بھیجنے اور وصول کرنے کا ریکارڈ رہے۔ اگر وہ آپ کی شکایت کا ازالہ نہ کرے تو اگلے پندرہ یوم کے اندر آپ صارف عدالت سے رجوع کر سکتا ہے. صارف عدالت چھ ماہ کے اندر اندر اس مسئلے کو حل کرنے کی پابند ہے۔
آجکل آن لائن شاپنگ بھی بہت عام ہے۔ ہر سائٹ یا پیج شاپنگ کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ صرف اس سائٹ یا پیج سے
شاپنگ کریں جس پر ان کے آفس کا درست پتہ لکھا ہوتاکہ شکایت کی صورت میں ازالہ ہوسکے۔ اب تو ویسے بھی ڈییجیٹل دور ہے ہر چیز کی ویڈیو اور تصاویر ثبوت کے طور پر بنائی جا سکتی ہے اس لیے ثبوت کی عدم موجودگی کا مسئلہ درپش نہںں ہوتا ہے۔
رفاع عامہ کے قوانین ہر معاشرے میں موجود ہونا ضروری ہں تاکہ اچھا معاشرہ تشکیل پا سکے ۔ایک مہذب معاشرے میں صارف کو اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ صارف میں وہ قوت ہوتی ہے جو ایک برانڈ کو بنا یا ختم کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں سارا بوجھ حکومت اور متعلقہ اداروں پر ڈالنا ٹھیک نہیں ہو گا ۔بلکہ صارف کو خود سے بھی تھوڑا ہوشیار ہونا پڑے گا۔ اگر وہ اپنے حقوق جانے گا تو اس کو حقوق دیے جائیں گے ۔

No comments:

Post a Comment